میری ماروی


 یہ دو دو درجن تو ہوں گے یہ دو درجن طحہٰ اور طلحہ کے بچوں کے لیے اور یہ ڈیڈھ درجن میری ماروی کے لیے۔ 

بازار سے منگوائے گے کیلے آگے رکھ کر نسرین بی بی گن گن کر کیلے ڈبوں میں ڈال رہی تھی کہ ماروی کا نام سنتے ہی پاس کھڑی ان کی دونوں بہوؤں کے چہروں پر ایک ساتھ ناگواری کے تاثرات ابھرے لیں بھلا اب کیلے بھی کوئی بانٹنے 
کی چیز ہے بھابھی  
 چھوٹی بہوزینب نے بڑی بہو کو ہنستے ہوئے کہا جب کہ بڑی والی آمنہ الگ غصے میں بولی چلی گئی ۔
تو اور کیا ماروی آپا کو لینا اچھے سے آتا ہے،شوہر کی اچھی خاصی کمائی ہونے کے باوجود ان کی نظر بس بھائیوں کی کمائی پر ہوتی ہے۔ماناکہ
بھائیوں کا کاروبار اچھا ہے پر اس کا ہی مطلب تو نہیں کہ وہ ہر چیز پر اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی جائیں
کچن میں کھانا بنانے کے ساتھ ساتھ یہ دیورانی جیٹھانی سرگوشیوں میں اپنے دل کا غبار نکالنے میں بھی محو تھیی ساس کو کچن میں آتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں
 آمنہ بیٹی آج گوشت ذرا زیادہ چڑھا لینا۔ شام کو ماروی آ رہی ہے ہماری طرف۔
نسرین بی بی نے خوشی خوشی یہ خبر بہوؤں کو دی ۔
مہینہ بھر تو ہؤا چلا تھا اسے میکے کا چکر لگاۓ آج آنا چاہ رہی تھی تو میں نے کہا رات کا کھانا تم سب ادھر ہی کھانا ۔آمنہ تم قورمہ بنا لومیں کھیر بنا لیتی ہوں ماروی کو بہت پسند ہے اور ہاں زینب بیٹا تم طحہ کو کال کر دو دوکان سے آتے ہوۓ بروسٹ بھی لیتا آۓ۔جی اماں جی ابھی کہ دیتی ہوں۔ساس کے کہنے پر زینب نے احترام سے جواب دیا اور کال کرنے چل دی۔ 
نسرین بی بی بہوؤں کو کھانے کے متعلق ہدایات دینے کے بعد اپنے کمرے  میں چلی گی۔  
آمنہ اور زینب ابھی کیلوں کی قربانی نہیں بھول پائ تھیں کہ اوپر سے ساس نے ماروی کی آمد کا اعلان کر کے انہیں مزید دہلا دیا زینب میرے تو کان پک گئے ہیں ہر وقت ماروی کا نام سن سن کر۔
بیزاری کی آخری حدوں کو چھوتی آمنہ بولی تو زینب اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں پیچھے کیوں رہتی بھابھی یہ ہم بہوؤں کا ہی حوصلہ ہے جو ہماری ساس ہمارے ہی پیسوں سے اپنی بیٹی کو نوازے جاتی ہیں  اور اگے سے بجائے احتجاج کرنے کے الٹا ہم سر تسلیم خم کیے دیتی ہیں ادھر ایک میری امی ہیں کیا مجال ان کی جو اپنی بہو کے سامنےایک چونی بھی پکڑا دیں۔
انہوں نے جو دینا ہوتا ہے بس چپکے سے میری مٹھی میں دبا دیں گی لیکن ادھر پہلے ماروی اپا پھر کوئی اور۔
تو تم ٹھیک رہی ہو کیونکہ میری امی بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہیں کی زینب کی باتوں پر سر ہلا ہلا کر اتفاق کرتی آمنہ کہہ رہی تھی۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عید بکرا عید کے علاوہ بھی بھابھی ہمیں کبھی کھانے پر بلائیں جب چلے جاؤ جو دال سبزی گھر میں پکی ہو وہی آگے لا رکھیں گی۔اور ہمارے سسرال میں ہر تیسرے ہفتے نند صاحبہ کے لیے پرتکلف دعوت کی جاتی ہے۔
 ماروی آپا جب آئی آتے وقت بچوں کے لیے بہت ساری آئس کریم لے کے آئی بچہ پارٹی اپنے اپنے پسند کا فلیور کھاتے ہوئے خوب خوش ہو رہی تھی  گھر واپس جاتے ہوئے نسرین بی بی نے ماروی کو دیسی انڈوں کا ڈبہ اور ساتھ میں کیلے دیے جنہیں دیکھ کر ماروی خوب خوش ہو گئی ارے واہ ماں میرے پسندیدہ دیسی انڈے کہہ کر جھٹ اماں کے ہاتھ سے وہ ڈبہ لیا اور چلتی بنیں
ان کی یہ حرکتیں بلا دو بھائیوں سے کیسے چھپی رہ سکتی تھی۔
اف میرے اللہ زینب کتنے مہنگے ہوں گے یہ انڈے آپا نے تو یوں خوشی کا اظہار کیا جیسے انہیں دیسی نہیں بلکہ سونے کے انڈے مل رہے ہیں۔
وہی تو میں سوچ رہی ہوں بھابھی بندہ جھوٹے منہ ہی کہہ دیتا ہے کہ اماں رہنے دیں۔میرے بھتیجے بھتیجیوں کو کھلا دیں مگر توبہ کریں جی یہاں انکار تو ہے ہی نہیں میرے بچو دل لگا کر پٹھو اب دیکھو نا تمہاری پھپھو کو پہلے پانچویں میں وظیفہ ملا اس کے بعد آٹھویں میں بھی اور پھر میٹرک کے امتحانوں میں تو میری ماروی نے پورے ضلعے میں دوسری پوزیشن لی تھی اخباروں میں اس کے نام کے ساتھ تصویریں بھی لگی ماروی والد مجید احمد دوم پوزیشن اس کے دادا بہشت نے تو گھر پر ہی حلوائی بٹھا لیا تھا اور منوں کے حساب سے مٹھائی بانٹی گئی تھی  ۔  بچوں کی عادت تھی ہر ہفتے کی رات وہ لازماً دادی سے کہانی سن کے سویا کرتے تھے آج بھی وہ سب مل کر ان کے بستر میں آن گھسے تھے انہیں  نیک دل شہزادی اور ظالم جن کی کہانی سناتے سناتے نسرین بی بی نے کب کہانی کا رخ ماروی آپا کی طرف موڑ لیا تھا کہ اماں کے لیے دودھ کا گلاس لاتی زینب یہ سن کر وہی باہر سے پلٹ آئی ۔
کیوں بھئی کیا ہوا دودھ واپس لے آئی ہو آمنہ اس سے پوچھنے لگی۔
اندر ساس صاحبہ تو بچوں کو کہانی سنانے کی بجائے ان کی ماروی پھپھو کی قابلیت کی داستانیں کھولے بیٹھی ہیں اور میرا کم از کم اس وقت یہ سب سننے کا بالکل بھی موڈ نہیں ہے بھابی میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں آپ کسی بچے کو بلوا کر اماں کو دودھ بھجوا دیں گلاس میز پر رکھ کر کمرے کی جانب جاتی ہوئی زینب اس وقت آمنہ کو بے حد جھنجھلائی سی نظر آئی ۔
یہ اماں بھی نا بیٹی کی تعریفوں کے پل باندھنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں جب دیکھو ایک ہی بات یہ سوچے بغیر کہ اگلا بندہ چڑ بھی سکتا ہے۔
زینب کے لیے دل میں ہمدردی کے جذبات لیے آمنہ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی ۔
دادی کیا ہماری پھپھو پڑھائی میں بہت لائق تھی۔ اندر زینب کی ہی بیٹی سادیہ دادی سے پوچھ رہی تھی تو ہاں نا تمہاری پھپھو پڑھائی میں بڑی ہی اچھی تھی پورے خاندان میں سب سے زیادہ ذہین وہی تھی بچوں کو یہ سب بتاتے ہوئے نسرین بی بی کا سر فخر سے تن گیا پھر تو دادی میں بھی ماروی پھوپھو کی طرح خوب سارا پڑھ کے بورڈ میں پوزیشن لوں گی 
ننھی سی سادیہ کے بہت بڑے ارادے پر تو دادی کو بے تحاشہ پیار آگیا اور اسے چوم کر بولی شاباش میری بچی اپنے ماں باپ کے لیے باعث فخر بنو اور کوئی بھی ایسا کام نہ کرو جس سے انہیں ندامت اٹھانا پڑے اس سے کوسوں دور رہو۔
کچھ عرصہ بعد نسرین بی بی بیمار ہو گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کافی بیمار رہنے لگی 
آخر کار ایک رات وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں
اور جب نسرین بی بی کا انتقال ہوا تو ایک بیٹی کی حیثیت سے ماروی اپا نے بھی اپنی ماں کے جانے کا بڑا صدمہ لیا ان کے چہلم تک باقاعدگی سے ا کر وہ ان کے ہی کمرے میں بیٹھ کر قران پڑھا کرتی اس کے بعد تو انہوں نے انا بالکل کم کر دیا کچھ بھائیوں کے سرد رویے کی وجہ سے بھی پیچھے ہٹتی چلی گئیں ۔
 ادھر ساس کا چہلم گزرا نہیں ادھر زینب کے مشورے سے آمنہ نے ان کے کمرے کا سارا سامان اٹھوا کر سٹور میں جا رکھوایا اور اس کمرے کو بچوں کے لیے سیٹ کر کے اماں کے ہر نشانی اور یاد کو مٹانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی۔

ماروی آپا کو اس بات کا اتنا دکھ ہوا وہ زبان سے تو اس کا اظہار نہ کر پائیں مگر جب کبھی بھی وہ گھڑی پل کے لیے بچوں سے ملنے آتی تو اماں کے کمرے کی طرف دیکھ دیکھ کر چپکے سے انسو بہا لیا کرتیں۔
انہیں اس کیفیت میں مبتلا دیکھ کر آمنہ اور زینب فاتحانہ مسرور ہوا کرتیں
طلحہ اور طحہٰ نے بہن کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر اپنی بیویوں کو منع کرنا چاہا لیکن اس معاملے میں وہ بھی ان کے آگے بے بس نظر آئے 
ساس کی وفات کے بعد پہلی عید تو اسی طرح سوگ میں گزر گئی یہ دوسری عید آرہی تھی ابھی ابھی بازار سے لوٹی آمنہ زینب کو اپنی عید کی شاپنگ دہا رہی تھی بھابی کیا زبردست کلر اور ایبرائڈری ہے اس سوٹ کی مجھے خود بھی اس برانڈ کے کپڑے بہت پسند ہیں زینب کی تعریف پر وہ خوش تو ہوئی لیکن بعد میں کچھ پریشان سی ہو کر اسے بتانے لگی سچ بتاؤں تو زینب پہلے طلحہٰ پیسے ہی نہیںں دے رہے تھے تمہیں پتہ تو ہے آج کل ان کا کاروبار کس قدر ڈاؤن ہے سمجھ میں نہیں آتا دن بادن پیچھے ہی جا رہا ہے مگر پھر نہ جانے ان کے دل میں کیا سمائی کے مجھے پیسے دے کر کہنے لگے کہ جاؤ اور اس میں سے اپنا اور ماروی آپا کا جوڑا لے آؤ ۔اپنے بچوں کے کپڑوں کے لیے تو میں نے دو ماہ پہلے میری کمیٹی نکلی تھی وہ سنبھال رکھی تھی اس میں سے خرید لائی ہوں اور یہ رہا ماروی آپا کا سوٹ کپڑے کی عام دکان سے خریدا گیا معمولی سے پرنٹ اور رنگ والا سستا سا سوٹ نکال کر وہ زینب کو دکھانے لگی یہ کون سا سستا ہے پورے 1200 روپے میں آیا ہے کوئی آپا ہمارے جوڑے پر ہی تو نہیں بیٹھی ہوئی میںنے  تو فرض پورا کرنا تھا سو کر دیا۔ 
جب حالات اچھے ہوں گے تب دیکھا جائے گا ابھی تو ان کے دونوں بچوں کو عیدی بھی دینی ہے وہ فکر مند ہوئی بھابھی بہترین سوٹ ہے بالکل ٹھیک کیا آپ نے ویسے بھی ہماری ساس بیٹی کے سارے چاؤ پورے کر گئی ہیں اب یہ اصول ہم پر ہرگز نہ چلے گا میں نے تو کوئی جوڑا وغیرہ نہیں دینا آپا کا طحہ خود کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے پریشان ہیں مجھے اور بچوں کو کپڑے لے دیے ہیں یہی کافی ہے ان کے بچوں کو دو دو سو روپے عیدی پکڑا دوں گی اگر وہ عید پر ملنے آئے تو لگے ہاتھوں زینب نے جٹھانی کو اپنے ارادے سے باخبر کر دیا۔
عید کے روز سہ پہر میں جب ماروی آپا عید ملنے آئی تو دونوں بھابھیوں کے منہ اس وقت یہ دیکھ کر کھلے کے کھلے ہی رہ گئے کیونکہ انہوں نے آمنہ کا دیا وہی بیکار سا سوٹ سلوا  کر پہن رکھا تھا کہنے لگی حسن نے تو عید کے تینوں دن کے لیے میرے پسندیدہ برینڈ کے کڑھائی والے سوٹ دلوائے ہیں لیکن میں نے کہا کچھ بھی ہو آج عید کے روز میں اپنے میکے سے آیا ہوا جوڑا ہی پہنوں گی حسن آپ والے عید کے اگلے دن پہن لوں گی۔
وہ بول رہی تھی اور شرمندگی اور ندامت کے گڑھوں میں گرتی آمنہ اور زینب جنہیں کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہ مل رہی تھی ماروی آپا خالی ہاتھ نہیں آئی تھی کہ مٹھائی بچوں کے لیے کھلونے عیدی کے ساتھ ساتھ آمنہ اور زینب کے لیے بھی اپنے جیسے ہی شاندار کڑاہی والے سوٹ لائی تھیں ۔
ارے آپا !یہ اتنا سب کچھ کس لیے ہم نے آپ کو دینا ہے لینا ہرگز نہیں طلحہ اور طحہٰ نے انہیں منع کرنا چاہا تو مصنوعی ناراضگی سے بولے میں تم دونوں سے بڑی ہوں اور بڑوں کو انکار نہیں کرتے جب تک اماں ابا زندہ تھے تو میں بھی چھوٹی بنی رہی اماں جو کچھ دیا کرتی تھی میں خوشی خوشی پکڑ لیا کرتے تھی مگر اب وہ نہیں ہیں اماں کو یاد کر کے ان کی انکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔
اللہ میرے مایکے کو آباد  رکھے بڑی بہن ماں کے برابر ہوتی ہے اس ناطے سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں تم سب کا خیال رکھوں۔
ماروی آپا کی اعلا ظرفی کے اگے آمنہ اور زینب ان دونوں کی پست ذہنیت کا بت پاش پاش ہو گیا اماں بلا وجہ ہی اپنی بیٹی کی تسبیح نہیں پڑھا کرتی تھی آج یہ حقیقت بھی ان پر اچھی طرح آشکار  ہو گئی۔
ماروی آپا سچ میں بڑے بختوں والی تھی جسےنہ تو کل کوئی لالچ تھا نہ ہی آج انہیں صرف عزیز تھا تو اپنے میکے کا مان جس کی سلامتی کے لیے وہ بے لوث دعا گو رہا کرتی تھی اس بات کو انہوں نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کر دکھایا۔
 اماں کے مرنے کے بعد ماروی آپا سے روا رکھے جانے والا سلوک ان کے کمرے کا سامان سٹور میں رکھوا کر آپا کو دی گئی اذیت پر اپنی فتح منانا اپ طلحہ اور طحہ کا مسلسل گرتا ہوا کاروبار گھریلو حالات میں مالی تنگی آمنہ اور زینب کے لیے ایک ایک کر کے ہر چیز آئینہ بنتی گئی جس میں انہیں اپنا کردار واضح نظر آرہا تھا عید نام ہے اپنوں کے لیے دلوں میں جمی رنجش کو مٹا کر سچے پرخلوص جذبوں کے ساتھ ان سے ملنے کا غلطیوں کی اصلاح اور تلافی کے لیے شاید عید کے دن سے زیادہ بہتر موقع اور کوئی نہیں تھا اس کا دیر سے ہی سہی مگر انہیں احساس تو ہو گیا تھا تب ہی آنکھوں میں آنسو اور دل میں احساس شرمندگی لیے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ایک ساتھ اٹھ کر ماروی آپا کے گلے لگ گئی اور ماروی آپا سے معافی مانگی

 

No comments