کتنے دور کتنے پاس کہانی


 ارے میری نالائق اولاد نے دو کوڑی کا کر دیا مجھے جیٹھانی کے آگے۔ میری پورے دن کی محنت بھی غارت کر دی۔ کل کمر درد کے باوجود سارا دن لگا کر ساگ کا پتیلا پکایا، یہ نامراد میری آنکھوں میں دھول جھونک کر اس جادو گرنی کے گھر دے آئی۔ میری سارے دن کی محنت غارت کر دی اس لڑکی نے " پروین آہ و بکا کر رہی تھیں۔ ان کے پاس کھڑے شاہد صاحب انہیں سمجھانے کی ناکام


کوشش کر رہے تھے۔


ارے پروین ! بندے کو اتنا کم ظرف نہیں ہونا چاہیے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر واویلا کرے۔ اپنی عمر کا خیال کرو، اس طرح کی حرکتیں کیمر از کم اس عمر میں زیب نہیں دیتیں اور رہی بات کہ نور نے اپنی تائی کے گھر ساگ بھیجا ہے، تو یہ سراسر غلط ہے۔ نور بھی تمہاری بیٹی ہے اس میں اتنی عقل نہیں ہے۔" شاہد صاحب کمر پر ایک ہاتھ رکھے کھڑے ہوئے اپنی دانست میں ہنوز انہیں سمجھا رہے تھے۔ "اچھا۔ میں احمق، میری اولاد کم عقل اور وہ آپ کی بھا بھی اور اس کی لڑکیاں بہت تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہیں۔  پروین پوری طرح گلا پھاڑ کر چلا رہی تھیں کہ ارے وہی تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہوتیں تو بھی بڑی بات تھی مگر افسوس ہم تو دونوں بھائیوں کی زندگیاں برباد کر دیں تم احمق عورتوں نے ۔“ شاہد صاحب بھی پوری طرح غصے میں دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ بیرونی دروازے سے داخل ہوتی  شمائلہ عرف چھٹی کے لیے یہ منظر کوئی نیا تو نہیں تھا مگر وہ کچھ سمجھنے کے انداز میں گھورتی ہوئی پر آمدے کی طرف چلی آئی اور دھیرے سے تخت پر بیٹھ گئی۔ "پتا نہیں کیوں میدان گرم ہے ۔“ ایک نگاہ


اماں پر ڈالتے ہوئے اس نے سوچا۔ لڑکی! تو اچھی طرح جانتی ہے، تیری تائی نے برسوں سے ہمارے ساتھ قطع تعلق کیا ہوا ہے، پھر تو یہ


کون سی رشتہ داریاں جگانے کی کوششیں کرتی پھر رہی ہے،  تو نے اس کے گھر ساگ بھیجنے کی جرات کیسے کی ؟ اماں گرج دار آواز میں پوچھنے لگیں۔ " ساک تائی کے گھر اماں! میںنے نہیں بھجوایا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی  ہے۔“

میں نے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا کہہ رہی تھی دنیا بھر کے چھچھورے لوگ تو اسی محلے میں ہیں کبھی کسی کو منہ نہیں لگایا پھر بھی دیکھو کیسے ڈونگے بھر بھر کہ بھیجتے ہیں ایسے چیزیں میں نے زندگی بھر نہیں کھائی مسلسل بڑبڑ کرتی رہی وہ بھی مجھے دیکھ کر اب میں کیسے مان لوں کہ اس ساگ ہمارے گھر سے نہیں گیا اماں مجھے نہیں پتہ ان کے گھر ساگ کہاں سے آیا مگر تیری قسم میں نے نہیں بھجوایا 

اس نے قسم کھاتے ہوئے اپنا ہاتھ اماں کے سر پر رکھنا چاہا جیسے اماں نے بری طرح جھٹک دیا پتہ نہیں کب عقل آئےگی تمہیں مٹھو کی ماں ساری زندگی بے بنیاد باتوں پر واویلا کرتی آئی ہو تم شاہد صاحب  اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کر دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلے گئے اماں پیچھے سے ابا کی پشت دیکھ کر ناک منہ چڑھاتی رہیں 

شاہد اور علی صاحب دونوں ایک ہی محلے بلکہ ایک ہی گلی میں رہتے تھے دونوں گھروں کے دروازے بالکل آمنے سامنے تھے ویسے تو یہ دونوں سگے بھائی تھے مگر عید پر بھی کبھی بول چال نہیں ہوئی بڑے بھائی علی صاحب کی شادی سلمہ خاتون سے ہوئی تھی جو کہ فطرتاً بہت مغرور مزاج کی  تھی اور سونے پر سہاگہ ایک ہی نند وہ بھی رحیم یار خان میں رہتی تھی ساس تو بہت پہلے مر کھپ گئی تھی سو گھر پر سلمہ خاتون کا راج تھا شادی کے اگلے برس سسرصاحب بھی چل بسے اب؛دو میاں بیوی کے علاوہ گھر میں ایک اور شخصیت تھی شاہد صاحب کافی سلجھے ہوئے سنجیدہ مزاج اور پڑھے لکھے فوج میں ملازم تھے اور صرف چھٹی کے دن گھر آتے علی صاحب کی کپڑے کی دکان تھی اور سلمہ خاتون اچھی اور آرام دہ زندگی گزار رہی تھی بڑی آپا پانچ سال بعد آئی تو رشتہ کرانے والی کو بلا بھیجا انہوں نے شاہد صاحب کے لیے پروین کو پسند کر لیا جٹ منگنی بٹ بیا چند دنوں میں ہی سادگی سے نکاح کر کے وہ پروین کو بھابھی بنا لائی سلمہ خاتون اس موقع پر بہت اکھڑی اکھڑی رہی اور دیورانی کے ساتھ بھی بن نہ سکی جٹھانی تو جو تھی وہ تھی دیورانی صاحبہ ان سے دو ہاتھ آگے نکلیں منہ پھٹ شکی مزاج اور جھگڑالو بڑی آپا اپنے پسند پر نادم سی ہو گئی چند دنوں میں واپس چلی گئی شادی کے دسویں دن گھر میں پہلا جھگڑا ہوا جب پروین نے جٹھانی سے لا ڈلی ماں جبین کو بستر پر جوتوں سمیت بیٹھنے پر تھپڑ رسید کیا اور پھر یہ جھگڑے روز کا معمول بن گئے گھر کا بٹوارہ کیا گیا شاہد صاحب نے اپنا حصہ لے کر اس گھر کے سامنے والا گھر خرید لیا گھر علیحدہ کرنے کے بعد بھی ان کے تعلقات میں کوئی بہترین نہ آئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرتیں اور بھی پروان چڑھتی گئی بچے جوان ہو گئے مگر ان دونوں گھروں کے تعلقات بہتر نہ ہو سکے دونوں بھائی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے تھے

ارے بھائی کون ہے ابا بڑی عجلت میں بیرونی دروازے کی کنڈی کھول رہے تھے سلام بھائی جان وہ پروین آپا گھر پر ہیں جی کہتے ہوئے ابا نے ایک طرف ہو کر محلے کی خاتون کو اندر انے کا راستہ دیا سامنے برآمدے میں تخت پوش اور لحاف میں بیٹھی پروین آپا اچک اچک کر باہر کی طرف دیکھ رہی تھی سلام پروین آپا محلے کی خاتون نے برآمدے میں داخل ہوتے ہی سلام کیا وعلیکم السلام سلام کا جواب دیتے ہوئے ان کی نظریں ابھی تک محلے کی خاتون کے بائیں ہاتھ پر تھی جو اس نے اپنی چادر میں چھپایا تھا یقیناً اس ہاتھ میں کچھ تو تھا مسرت کے ابا خانے وال گئے تھے کل شام ہی واپس آئے ہیں وہاں کی مشہور مٹھائی لائے تھے میں نے سوچا آپ کو دے آؤں خاتون نے تخت پر بیٹھتے ہی چادر کے اندر سے ہاتھ نکال کر مٹھائی کی پلیٹ پروین آپا کی طرف بڑھائی پروین کی تجسس نگاہوں کو قرار آ گیا ارے بہت شکریہ سیمہ بہن بڑے خوشگوار لہجے میں شکریہ ادا کیا گیا ارے بہن شکریہ کیسا یہ تو میری اپ سے محبت ہے میں تو رات کو ہی لے اتی مگر اپ کی جٹھانی صاحبہ تو ہر وقت دروازے کے ساتھ ہی چپکی رہتی ہیں اب ایک کلو مٹھائی میں سہارے محلے میں دینے سے تو رہی اب اگر مجھے آپ کے گھر کچھ لاتے وہ دیکھ لیتی تو پورا سال اس کا گلا نہیں ختم ہونا تھا میں نے بڑی چالاکی کی کل ساگ پکایا تھا رات کو ڈونگے میں ڈال کر اس کے گھر دے دیا اب اس نے مجھے آپ کے گھر آتے دیکھ بھی لیا ہو تو وہ یہی سمجھے گی کہ آپ کی طرف بھی ساگ لائی ہوں محلے کی عورت ہنس ہنس کر سرگوشی کے انداز میں بتا رہی تھی اور آواز کچن میں کھڑی چمی تک جا رہی تھی حیرت خوشی سے اماں کا منہ کھل گیا مگر ب بڑی تیزی سے اماں نے مسکراہٹ دبا کر خاتون کی طرف دیکھا اماں کو اب پتہ چل چکا تھا کہ جٹھانی صاحبہ کے گھر ساگ کہاں سے آیا اماں سیمہ خالہ اگر یہ راز فاش نہ کرتی تو تجھے اپنی بیٹی کی قسموں کا بھی کبھی اعتبار نہیں آنا تھا چھمی نے اماں کی طرف دیکھ کر ناک منہ چڑھایا اور سیمہ خالہ کے جاتے ہی مٹھائی پر حملہ کر دیا ارے میری لاڈو دفعہ کر یہ باتیں ادھر آ میرے پاس مٹھائی کھا اماں نے ناک سے مکھی ہٹانے والے انداز میں ہاتھ لایا گویا اس کی بات سنی ان سنی کی

 اماں ویسے بات سمجھ میں نہیں آئی سیما خالہ نے تائی کو سال پر ٹرخا دیا اور ہمارے لیے یہ خاص قسم کی مٹھائی لے کر آگئی معاملہ کیا ہے چھمی نے مٹھائی منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ارے میری چندہ جس عورت کا اکلوتا جوان تعلیم یافتہ برسر روزگار کنوارا بیٹا ہو اس کے گھر میں لوگ ایسے ہی مٹھائیاں بھیجتے ہیں اماں سر ہلا کر کہتی ہوئی مٹھائی کے مزے لے رہی تھی اوہو تو یہ بات ہے چھمی کو بھی جیسے پوری بات سمجھ اگئی

پروین کی دو ہی اولادیں تھی آصف جسے پیار سے مٹھو کہتے تھے مزاج کا دھیما بردبار نیک سیرت شاہد صاحب نے اسے کسے ریلوے میں بطور کلر کلرک بھرتی کروایا دیا تھا بہت محنت اور ایمانداری سے ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا شاہد صاحب بیٹے کی فطرت خاصے سے  مطمئن تھے اس سے چھوٹی شمائلہ چھمی تھی ایک نمبر کی جھگڑالو پٹاخہ لگائی بجھائی کی عادت بھی تھی پڑھائی میں تو نہ دل لگتا تھا دوبارہ میٹرک فیل شدہ اب محلے کی کسی عورت کے پاس سلائی سیکھنے چلی جاتی تھی

ماہ نور کا رشتہ اپنے خالہ زاد کے ساتھ طے ہو گیا تھا لڑکا چار پانچ سال سے لندن میں مقیم تھا عین ممکن تھا کہہ ماہ نور بھی شادی کے بعد لندن چلی جائے گی سلمہ خاتون کے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے صبح سے سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کر رہی تھی سوائے اپنے دیور کے گھر کے  بھئ مٹھائی کے ذریعے دراصل انہوں نے سارے محلے میں منگنی کی خبر جو پھیلانی تھی پھر کئی روز تک مبارک بادیں وصول کرنی تھی اور اس سب کے پیچھے مقصد صرف اپنی دیورانی کا دل جلانا تھا یہ خبر محلے کی عورتوں کے ذریعے پروین تک تو پہنچ ہی جانی تھی مگر سلمہ خاتون کو قرار تب آنا تھا جب وہ خود پروین کے کانوں میں سیسہ انڈیلتی اسی لیے وہ آج بار بار بیرونی دروازے پر آ کھڑی ہوتی کبھی سامنے والی سمینہ سے باتوں کے بہانے کبھی برابر والی مسرت کا مغز چاٹتی سلمہ بہن تم تو خیر سے ایک لڑکی کی فکر سے آزاد ہو گئی برابر والی مسرت اور سلمہ خاتون سر جوڑیں کھڑی تھی جب ہی پروین بازار جانے کے لیے ہی گھر سے نکلی ہاں مسرت بہن بڑے اچھے نصیب ہیں میری ماں نور کے بہن نے منتیں کر کے رشتہ لیا ہے میری بیٹی کا جس شان سے بیاہ کر جائے گی زمانہ دیکھے گا اور جائے گی بھی سیدھی لندن بس اللہ حاسدوں کی نظر سے بچائے 

سلمہ خاتون اتنی بلند آواز میں مسرت کو کم تیز تیز چلتی پروین کو سنا رہی تھی جٹھانی صاحبہ کا واویلا اتنا اونچا تھا کہ پروین نے نہ چاہتے ہوئے بھی سب سن لیا تھا پروین کے دل میں آگ لگا کر سلمہ خاتون اب بہت مطمئن تھی اور کام کا بہانہ کر کے مسرت سے جان چھڑا کر جا چکی تھی اماں میں کافی دیر سے نوٹ کر رہی ہوں جب سے تم بازار سے آئی ہو کچھ پریشان سی ہو اماں کی پریشانی پر چھمی سے رہا نہ گیا تو پاس بیٹھ کر پوچھنے لگی تیری تائی نامراد  کمبخت نے ماہ نور کا رشتہ جو کر دیا اور وہ بقول تیری تائی کے بہت اونچی جگہ بس یہی غم کھائے جا رہا ہے مجھے لہجے میں حسد نظر آرہی تھی اماں ہم نے کون سا رشتہ لینا تھا جو تو پریشان ہو رہی ہے اس نے اپنی اماں کو سمجھانا چاہا ارے دفع دور لعنت بھجوں ایسے لوگوں پر مجھے تو یہ غم ہے کہ اس نے اپنی انپڑھ نکمی لڑکی بہن کے پڑھے لکھے بیٹے کو دے دی اور میرے بہن بھائی میرے بہن بھائیوں میں تو تم دونوں بہن بھائیوں کا جوڑ بھی نہیں پروین متفکر سی ہو گیں

دیکھو اماں پریشان ہوتی ہیں لڑکیوں کی مائیں تو نے پہلے بیانہ ہے بیٹا اور وہ بھی اچھا خاصا عقلمند خوبصورت اور سرکاری ملازم اماں تجھے تو جٹھانی کے سامنے گردن اکڑ کر رکھنی چاہیے چھمی ہنستے ہوئے بھویں اچک اچک کر اماں کو سمجھا رہی تھی ہوں... اماں نے  سکون کی سانس خارج کی اب تو دیکھ میں آصف کا رشتہ کسی اونچی جگہ کروں گی پھر کیا جی ادھر پروین نے ٹھانی ادھر رشتہ کروانے والی ائے روز کوئی نیا رشتہ لے آتی سلمہ خاتون کے گھر بھی بیٹی کی شادیوں کی تیاریاں عروج پر تھی ظہر کی نماز کے بعد علی تایا نے چھوٹے بھائی کو مسجد کے باہر ہی روک لیا مسجد کا نکڑ ہی وہ جگہ تھی جہاں دونوں بھائی اپنے دل کی بھڑاس  نکالا کرتے تھے جی بھائی صاحب شاہد صاحب نہایت عاجزانہ انداز میں بولے تمہاری بھتیجی کی شادی ہے اگلے ہفتے بڑی آپا کافی بیمار ہیں وہ نہیں آسکیں گی میں نے بہت کوشش کی کہ اس موقع پر ہم دونوں گھرانوں میں صلح ہو جائے گی مگر میری ساری کوششیں ناکام ہو گئی تمہاری بھابھی نے مجھے خبردار کر دیا ہے کہ میں ایسی باتیں سوچوں بھی نہ اور بچیاں بھی اس کی تقلید کرتی ہیں کہتے ہوئے ان کی آنکھیں لبا لب آنسوں سے بھر گئی بھائی صاحب آپ پریشان نہ ہوں ساری زندگی ہم انہیں عورتوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے اب جو چند سال رہ گئے ہیں وہ بھی ایسے ہی گزر جائیں گے شاہد صاحب نے بڑی محبت سے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا ایسے موقعوں پر تو اپنوں کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے دکھ سکھ میں انسان کو اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس عورت نے سگے بھائی کو شادی کی دعوت دینے سے منع کر دیا ہے دونوں بھائیوں کی آنکھیں آبدیدہ تھی 

پروین نے کافی رشتے رد کرنے کے بعد بالآخر جنت کو پسند کر لیا ادھر علی صاحب کی بیٹی بھی رخصت ہو کر چلی گئی ادھر آصف کی منگنی ہو گئی آصف کی ماں سمدیوں کا شمار بے شک امیر لوگوں میں نہیں ہوتا پھر بھی ہر لحاظ سے وہ ہم سے بہتر ہیں ان کا گھر اور رہن سہن بھی ہم سے مختلف ہے لڑکی کل کو ہمارے گھر گزارا کر لے گی منگنی کی رسم سے فارغ ہو کر شاہد صاحب اپنی تھکان اتارنے کے لیے لیٹے تو انہیں آگے کی فکر ہوئی آصف کے ابا تمہیں ساری زندگی ایسی نحوست بھری پاتیں کرتے رہے ہو خدا کے لیے اب بس کرو  پروین الٹا شوہر پر چڑھ دوڑی جس پر شاہد صاحب سر جھٹک کر چپ ہو گئے ماہ نور شوہر کے ساتھ لندن چلی گئی تو سلمہ خاتون کی گردن اور اکڑ گئی اب انہوں نے بیٹی کے رشتے کے لیے کمر کس لی ہر کام میں مقابلہ بازی تو دونوں دیورانی جٹھانی کا خاصہ تھا اب بچیوں کی شادیوں کا مقابلہ بھی ہو شروع ہو گیا وقت بیتا مہینے گزرے تو آصف کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی یہ دن بہت مصروف تھے کہ پروین اورچمی عرف شمائلہ کا روزانہ بازار کا چکر لگتا شادی سے شادی سے ایک دن پہلے شاہد صاحب کے گھر ٹرک بھر کے جیز آگیا محلے کی عورتیں اتنا قیمتی سامان دیکھ کر انگشت برنراں  رہ گئی 

پروین کی خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی سلمہ بہن تمہاری دیورانی نے تو خاصی اونچی جگہ ہاتھ مارا ہے جہیز دیکھا ہے بالکل ویسا سامان تھا جیسا ٹی وی میں دکھاتے ہیں اتنے قیمتی صوفے بیڈ الماریاں پورے محلے میں کسی کے پاس ایسی چیزیں نہیں ثمینہ بڑی حیرت سے سلمہ خاتون کو بتا رہی تھی سلمہ خاتون نے ناک چڑھائی ویسے سیانے کہتے ہیں لڑکے کا رشتہ اونچی جگہ کرنا اپنی شامت بلوانے والی بات ہے وہ لڑکی اسے ناکوں چنے چبوائے گی لکھ لو میری بات سلمہ خاتون جلے کٹے انداز میں کہتے ہوئے طنزیہ ہنسنے لگی

اگلے دن جنت دلہن بن کر اگئی پروین اسے تھام کر آصف کے کمرے تک لے آئی آصف نے کتنی کوشش کی تھی اس موقع پر تایا کی فیملی کے ساتھ صلح کی جائے مگر ماں کی ضد کے آگے اس کی ایک نہ چلی ولیمے پر چمی عرف شمائلہ اور اس کی ماں خوب چہک رہی تھی بلکہ جب کہ آصف اور ابا مجھے بجھے تھے لیکن پروین کو پرواہ کہاں تھی گھر میں نئی نویلی دلہن کی خوب خدمتیں ہو رہی تھی کسی دن قورمہ بنتا کسی دن دلہن کی فرمائش پر کھانا باہر سے آتا آصف کی چھٹی ختم ہونے والی تھی اگلے دو دن بعد اسے واپس جانا تھا اماں کے کہنے کے باوجود اس نے صرف دس دن کی چھٹی لی تھی ان دونوں میں اماں نے بالخصوصا چھمی کو منع کیا تھا کہ وہ بھائی باوج کو ڈسٹرب نہ کرے اور دونوں یہ ٹائم ایک دوسرے کے ساتھ گزارے آصف کے جانے کے اگلے دن بہو رانی بھی میکے چلی گئی پھر اسی دن آئی جب آصف آیا رفتہ رفتہ یہ معمول بن گیا آصف کی غیر موجودگی میں وہ ایک دن بھی سسرال نا ٹکی پہلے پہل تو پروین نظر انداز کرتی رہی لیکن پھر محلے کی عورتوں کے درمیان ہونے والی باتوں سے خاصی پریشان ہو گئی کوئی بات نہیں ابھی نیں نیں شادی ہوئی ہے دو چار ماہ گزر جائیں تو بہو رانی کی لگا میں کھینچ لوں گی انہوں نے دل میں سوچ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی دوسری طرف سلمہ خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی طے کر دی لڑکا پولیسی ڈیپارٹمنٹ میں تھا اس کی فیملی میں سب ملازمت پیشہ تھے شاہد صاحب نے منع کیا اس رشتے کے لیے اس کے باوجود سلمہ بی بی نے شہر کے اچھے میرج ہال میں فنکشن رکھا اور بہت قیمتی جہیز دیا اس سب کے لیے ان کے شوہر نامدار کو قرضہ بھی لینا پڑا ماہ نور کوشش کے باوجود بہن کی شادی میں شرکت نہ کر سکی البتہ اس نے اسلامی کے طور پر بہن کو اچھی خاصی رقم بھجوائی اور ساتھ یہ تنقید کی کہ شوہر کو ڈھیل نہ دینا میری مثال تمہارے سامنے ہے کیسے کس کے رکھا ہے صاحب کو جہاں پاؤں رکھتی ہوں ہاتھ رکھتا ہے کیسے شادی کے فوراً بعد ہی ساتھ لے گیا اگر میں ذرا ڈھیل دیتی تو ساری زندگی ادھر رہ کر ساس کی خدمت کرتی تم بھی پہلے دن ہی اپنی بات منوانے کی عادت ڈال لینا فروا پر تاکید کا بہت جلد اثر ہوا شادی کے شروع کے دنوں میں ہی اس نے علیحدہ گھر کی ڈیمانڈ کر دی پہلے پہل تو شوہر  اسے سمجھاتا رہا مگر فروا اپنی ضد پر قائم رہی تو وہ بھی اکڑ گیا یہ تربیت کی ہے تمہارے والدین نے مہینہ نہیں ہوا اور تم چلی ہو گھر الگ کرنے کی فرمائش کرنے اس گھر میں تمہیں کیا کمی ہے گھر میں کام کرنے کے لیے ملازمہ ہے کھانے پینے کے معاملے میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں پھر تمہیں کیا مسئلہ ہے بی بی شادی کے بعد شوہر کو اس کے خونی رشتوں سے الگ کر کے رکھنا یہ تمہارے گھر کا رواج ہے اس لیے تو شادی جیسے موقع پر بھی تمہاری ماں نے شوہر کے رشتہ داروں کو نہیں بلایا تھا ہمیں پہلے پتہ چل جاتا کہ تم لوگ اس قسم کے ہو تو میں کبھی ایسے گھر میں بیٹا کی شادی نا کرتی فروا کی ساس جو بیٹے کے اونچا بولنے پر اچانک اندر آئی تھی سب سن کر زہر خند لہجے میں گویا ہوئی اب اگر یہاں رہنا ہے تو بالکل ویسے رہو جیسے ہم چاہیں گے اس کی ساس دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی پھر یہ بحث روز کا معمول بن گیا اس کی ساس کا رویہ بھی بدل گیا شوہر بھی پہلے جیسا نہ رہا مگر وہ بھی سلمہ خاتون کی بیٹی تھی اپنے موقف سے اتنی جلدی کیسے ہٹتی ڈٹی رہی نتیجہ یہ نکلا فروا لڑ جھگڑ کر ماں کے پاس آگئی شوہر سے اپنی بات منوانے کا اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا 

رات کو جنت آصف کی واپسی کے لیے اس کا بیگ تیار کرنے کے بعد اپنا بیگ کھولنے لگی ارے تم کیوں بیگ تیار کرنے لگی بس بھائی بہت ہو گیا مائیکہ اب اپنے گھر میں رہنا سیکھو یہاں دل لگاؤ آصف نے بڑے پیار سے کہا اور پھر اس سے یہاں رہنے پر امادہ کر لیا کیا مصیبت ہے بھئی صبح صبح کچن میں کون سی جنگ چھڑ گئی جاتی ہے اس زور سے برتن پٹکے جاتے ہیں کہ مردے بھی قبر سے جاگ جائیں سوئے ہوئے لوگوں کا ہی لحاظ کر لیا کرو آصف کے جانے کے بعد یہ پہلی صبح تھی جب بہو بیگم نے صبح صبح ہنگامہ کر دیا ارے لڑکی اپنی زبان پر قابو رکھو شادی کے ان چار مہینوں میں شوہر کے بعد تمہارا یہ پہلا دن ہے اور ایک دن میں ہی اپنی اوقات دکھا دی لیکن یاد رکھو اس گھر میں وہی ہوتا ہے جو میں چاہتی ہوں پروین نے بھی بنا لگی لیٹی بہو کو کھری کھری سنا دی ہفتے کے روز آصف گھر آیا تو رات میں خوب ہنگامہ ہوا دونوں باپ بیٹا بے بسی سے سارا منظر دیکھتے رہے اگلی صبح جنت میکے چلی گئی اور جاتے جاتے دو ٹوک انداز میں کہہ گئی اگر میری ضرورت ہو تو الگ گھر لے کر مجھے لے لینے آ جانا ورنہ میرے اور تمہارے راستے الگ الگ گھر میں ایک اداسی کا ماحول تھا آصف کو فریقین میں مفا ہمت نظر نہیں آرہی تھی لیکن اس نے ماں کو برداشت کرنے کی تلقین کی جس پر وہ سر سے اکھڑ گئی دوسری طرف جنت ساس کے ساتھ رہنے پر ہرگز مادہ نہیں تھی اگر الگ  گھر میں تم لوگ خوش رہ لو گے تو تم ایسا ہی کر لو شاہد صاحب نے بیٹے کو پریشان دیکھ کر رائے دی 

آج صبح سے موسم گرم تھا سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقید تھے ویسے بھی دونوں دیورانی جٹھانی اپنے اپنے گھروں میں کے جھمیلوں میں ایسی الجھیں کے ایک دوسرے کی خبر رکھنے کی بھی فرصت ہی نہ تھی بڑی آپا صحت یاب ہونے کے بعد عمرہ کی ادائیگی کے لیے جا رہی تھی اور بھائیوں سے ملنے کی غرض سے بنا بتائے ہی آگئی تو یہ حالات ہیں تم لوگوں کے بڑی آپا بہت  انہماک سے شاہد صاحب کے دل کا حال سن رہے سن کر گویا ہوئی میں رحیم یار خان میں ہی تھی مگر تم لوگوں نے تو مجھے پرایا ہی کر دیا پھر جب تم لوگوں نے چاہا نہیں کی تو میں نے بھی دل پر پتھر رکھ کے میکے کا راستہ بھلا دیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے آنے سے تم لوگوں کے گھروں میں بدمزگی ہو مگر میاں تم بھائی بھائی تو آپس میں سلوک سے رہتے گھر علیحدہ کر لیے چلو یہاں تک تو بات ٹھیک تھی مگر ایسی کون سی رنجشیں تھی کہ تم لوگوں نے زندگی بھر کے لیے قطع تعلق کر لیا تم لوگوں نے جو کیا تمہارے بچے بھی اسی نقش قدم پر چل پڑے آپا کا رخ اب سلمہ خاتون کی طرف تھا جو گردن جھکائے بیٹھی تھی دیکھو بی بی اگر تم نے اپنی اولاد کو خاندان میں مل جل کر رہنا سکھایا ہوتا تو تمہاری بیٹی یوں شادی کے ایک مہینے میں ہی لڑک جھگڑ کر الگ ہونے کی فرمائش نہ کرتے پھر دیکھ لیا نتیجہ ہر کوئی شاہد اور علی صاحب جیسا نہیں ہوتا جنہوں نے بیویوں کی ہر ناجائز اور جائز بات کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ابھی تو تمہاری بیٹی لڑ جھگڑ کر آئی ہے کل کو خدانخواستہ اگر اگلوں نے ہی اسے لے جانے سے انکار کر دیا تو بیٹی کو گھر بٹھا لو گے کیا پھر دوسری لڑکی کا سوچو وہ بھی وہ بھی اسی کے نقشے قدم پر چلے گی زمانہ بہت تیز ہے لوگ تو کہیں گے بڑی نے گھر نہیں بسایا تو یہ بھی بہن کے ہی نقش قدم پر چلے گی اسی کی بہن ہے ہر کام اپنی مرضی سے نہیں ہوتا دوسروں کی قدر کرنا بھی سیکھو ابھی وقت ہے ابھی بھی سنبھل جاؤ جھوٹی انا کے خول سے باہر نکلو اؤ اپنی بچیوں کا بھی کچھ سوچو سر جھکائے بیٹھی سلمہ خاتون بھیتے   دنوں کو سوچ کر شرمندہ ہو رہی تھی لیکن بڑی آپا کی باتوں سے اس کے ذہن پر لگا زنگ اتر گیا تھا فروا تمہاری پھوپھو نے جو کہا ہے وہ لفظ با لفظ حق ہے تنہا سب سے کٹ کر من مانی کی زندگی اگر گزار بھی لو تو ایسی زندگی کا کوئی لمحہ بھی قابل رشک نہیں ہوتا اصل زندگی تو وہ ہے جو سب رشتوں کے بیچ خاندان کے ساتھ جڑ کر گزاری جائے اور یہی باوقار زندگی ہوتی ہے تم تیار رہو اور تمہارے ابو تمہارے سسرال تمہیں لے جائیں گے تم اپنی ساس اور شوہر سے معافی مانگ لینا وہ لوگ ابھی تم سے بد دل ہیں لیکن تم اپنی محبت سے ان کے دلوں میں دوبارہ جگہ بنا سکتی ہو بیٹا میں بھی تمہاری ساس سے معذرت کر لوں گی سلمہ خاتون پوری طرح بدل چکی تھی کہاں گئے تھے تم آصف صبح سے تمہارا فون بھی بند تھا وہ جیسے ہی گھر واپس آیا برآمدے میں بیٹھے ابا اماں جو شاید اسی کے منتظر تھے یک جان بول پڑے میں وکیل کے پاس گیا تھا میں نے جنت کو طلاق بھیج دی ہے بہت پریشان لہجے میں وہ رک رک کر سارے الفاظ ادا کر رہا تھا کیا اماں ابا ہکا بکا رہ گئے ہاں اب وہ بضد تھی  کہ الگ گھر میں ہی رہنے رہے گی میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد پر قائم تھی اماں کی بھی اسے سپورٹ رہی تھی بیٹا تم الگ گھر لے لیتے یوں گھر برباد نہ کرتے ابا کی آواز بہت کمزور ہو گئی تھی نہیں ابا زندگی کا سکون الگ گھر سے مشروط نہیں ہے عورت اگر عقلمند ہو تو وہ خاتون  خاندان کے ساتھ مل کر قابل فخر کی زندگی گزار سکتی ہے جب کہ* عورت الگ گھر میں بھی شوہر کا سکون غارت کر دیتی ہے بیٹے کی اس بات پر ابا کی نظریں بے ساختہ پروین کی طرف اٹھ گئی اور پروین نے  فوراً اپنی نظریں جھکا لی 

اور اگر میں اسے لے کر الگ ہو جاتا تو آپ لوگ ساری زندگی میری شکل کو ترس جاتے انسان چیزوں کے بغیر رہ سکتا ہے لیکن خونی رشتوں سے جدائی بہت اذیت ناک ہوتی ہے میں نے ساری زندگی آپ کو اور تایا ابا کو سسکتے دیکھا ہے اپ دونوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ سمجھوتا کیا تھا بہتری کی امید پر مگر الگ گھروں میں بھی یہ خوش نہ رہ سکے  مگر آپ اور تایا اب ایک دوسرے سے بات تک کرنے کو ترس گئے ہیں کتنے پاس ہو کر بھی آپ لوگ اتنے دور ہیں کہ ایک دوسرے کے غم کا احساس نہ خوشیوں کی پرواہ میں آپ کے اور تایا جیسا سادہ نہیں جو ایک عورت کی زندگی خاطر خونی رشتوں سے قطع تعلق کر لوں میری زندگی میں وہی آئے گی جو میرے ساتھ میرے والدین کو میرے عزیزوں کو اپنائے گی چاہے بنا جہیز خالی ہاتھ ائے اس کی باتوں میں سچائی تھی جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا اسی لمحے برآمدے کا پردہ سرکا سامنے پڑی آپا کھڑی تھی ان کے پیچھے تایا اور ان کی فیملی تھی ایک پل کو سب ششد سے اپنی  اپنی جگہ کھڑے رہ رہے پھر ابا آگے پڑے ابا اور بڑی آپا کافی دیر تک ایک دوسرے کا گلے لگے رہے آصف نے سب کو بیٹھنے کا کہا کچھ لمحے بالکل سکوت رہا پھر بڑی آپا بولی میں عمرے کی ادائیگی کے لیے جا رہی ہوں سوچا تم لوگوں سے ملتی چلو تمہارے بیٹے کی ساری گفتگو میں نے سنی ہے تم دونوں بھائیوں کے حالات جان کر بہت دل دکھتا ہے میرا لیکن مجھے خوشی ہے جو باتیں میں نے سب لوگوں سے کرنا چاہ رہی تھی وہ تمہارے بیٹے نے کہہ دی 

آپا میرے بیٹے نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں مجھے ایسا لگ رہا ہے ساری زندگی میں نے صرف غلط کیا ہے اب ایک لمحے کی تاخیر کی یہ بغیر میں سب لوگوں سے معافی مانگتی ہوں پروین نے شوہر کے اگے ہاتھ جوڑ دیے پھر شاہد کے اگے بڑی آپا کے آگے اور پھر سلمہ خاتون کی طرف بڑھ گئی مجھے معاف کر دو غلطی میری ہے میں بڑی تھی میں نے ہی تمہیں پہلے دن قبول نہیں کیا کیونکہ میرے دل و دماغ میں گھر پر اپنی حکمرانی چاہتی تھی سلمہ خاتون اٹھ کر پروین سے لپٹ گئی دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی باقی سب کی آنکھیں بھی ابدیدہ ہو گئی سلمہ خاتون نے کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور معافی مانگی دونوں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے لیکن یہ آنسو خوشی کے تھے  بچھڑوں کو پا لینے کی خوشی کے پھر سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے میں ایک رائے دینا چاہتی ہوں تم بھائیوں کو فروا خیر سے کل اپنے گھر چلی جائے گی اس کے بعد علی نے چھوٹی بیٹی کی رخصت کر دی تو وہ اس سے بڑھاپے میں اکیلے رہ جائیں گے میں چاہتی ہوں ماہ پارہ اور آصف کا رشتہ طے کر دیا جائے تاکہ گھر کی بات گھر رہ جائے نہ وہ بیٹی کے لیے غیروں کے در پر بھٹکے اور نہ تم  بیٹے کی دوسری شادی کے لیے غیروں کے آگے دامن پھلاؤ اب بتاؤ تم لوگوں کو کوئی اعتراض ہے بڑی آپا نے دونوں بھابیوں کو مخاطب کیا نہیں نہیں ہمیں کیوں اعتراض ہوگا آپ بڑی ہیں جو آپ کو بہتر لگے وہی ہماری مرضی دونوں نے یک زبان کہا دونوں بھائیوں کی انکھوں میں جگنو چمکنے لگے آصف اس بات پر شرما گیا باقی سب اس کی معصومیت پر ہنس پڑے باہر ہلکی ہلکی ریم جم شروع ہو گئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا برآمدے میں داخل ہوا اور وہاں لوگوں کی روحوں کو سرشار کر گیا جہاں تنہائیاں اور جدائیاں ہوتی ہیں وہاں ایسے موسم اداسیاں لے کر آتے ہیں لیکن جب دلوں سے نفرتیں  ختم ہو جاتی ہیں ان کی جگہ سچے جذبے  خلوص محبتیں پیدا ہو جائیں تب ہر موسم ہی سہانہ  لگتا ہے 

No comments